کالم نگار


  1. تحریر ! محمد اکرم خان فریدی

        دنیا کی بڑی بڑی قوموں کی ترقی کی تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے سفر بلا و بعیدہ سے کس قدر فوائد حاصل کئے جو فوائد کہ صرف انہی کی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ دنیا کی شائستگی کو بھی اُن سے معتدبہ فائدہ پہنچا اور جو قومیں کہ باوجودمعراج ترقی پر پہنچنے کے سفر اور سیاحت کو ترک کرکے چار دیواری عزت نشین ہو گئیں اُنہوں نے نہ صرف اپنی عظمت اور شوکت کو ہی کھو دیا بلکہ دنیا کی شائستگی کو بھی بڑانقصان پہنچایا ۔گزشتہ دنوں ایک قومی اخبار کے صحافی جاوید معراج نے سفر کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 25صحافیوں کے لئے مطالعاتی دورے کا اہتمام کیا ۔ ملکہ کوہسار مری میں پیپلز پارٹی کے ایک نہائیت ہی اہم رہنما آصف خان سے ملاقات بھی شیڈول کا حصہ تھی ۔ مجھے اس بات کا قطعی طور پر اندازہ نہیں تھا کہ وہ انتہائی منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔مری کے ایک خوبصورت ہوٹل میں شام چار بجے آصف خان صاحب کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا ،صحافیوں کے تلخ و شیریں سوالات نے اُنہیں گھیرے میں لینے کی کوشش بھی کی لیکن اُنکی حاضر جوابی اور باعلم گفتگو نے ہر سوال کا دفاع کیا ۔گفتگو کے دوران جب اُنہوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو پاکستانی کی معیشت کے لئے انتہائی ضروری قرار دیا تو وہاں موجود تمام صحافیوں کی آنکھیں کھُلی کی کھلی رہ گئیں اُنکے اِس بیان سے اندازہ لگا لیا کہ پیپلز پارٹی میں جتنے بھی ترقی پسند لوگ ہیں وہ کالا باغ ڈیم کی فی الفور تعمیر چاہتے ہیں ۔ابھی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ آصف خان صاحب نے ایک اور بیان دے کر سب صحافیوں کو چونکا دیا ۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پنجاب حکومت جہادیوں کی مدد کر رہی ہے ۔سوالات کا سلسلہ جاری تھا لیکن میرے
     دماغ میں آصف خان صاحب کا پنجاب حکومت کے بارے میں موقف گردش کرنے لگا ۔میں سوچ رہا تھا کہ یہ حقیقت ہے یا فقط پیپلز پارٹی کی (ن)لیگ کو زیر کرنے کے سلسلہ میں حکمتِ عملی؟یہ حقیقت ہے یا پروپیگنڈہ اِس کا فیصلہ وقت کرے گا لیکن یہاں یہ رائے دینا ضروری ہے کہ آصف خان صاحب کی پنجاب حکومت کے بارے میں مزکورہ گفتگو حقیقت ہو تب بھی یہ پاکستان کے لئے بڑے خطرے کی علامت ہے اور اگر یہ پیپلز پارٹی کا پروپیگنڈہ ہو تب بھی ۔کیونکہ اِس پرپیگنڈہ کے بعد پیپلز پارٹی میاں نواز شریف اور اسکی پارٹی کا گراف ڈائون کرنے میں تو کامیاب ہو جائے گی لیکن اس پروپیگنڈہ کی وجہ سے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی ہوجائیں گی کیونکہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ بھی اگر جنگ کی لپیٹ میں آگیا تو یہاں کچھ نہیں بچے گا کیونکہ یہاں مزاہمت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔بہر حال مسلم لیگ (ن) ہو یا (ق)،پیپلز پارٹی ہو یا اے این پی،دینی جماعتیں ہوں،ایم کیو ایم ہو،تحریکِ انصاف ہو ،میں سبھی کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ سیاست میںدانشمندانہ جنگ لڑیں جو صرف اور صرف ملکی مفاد کی خاطر ہو ،ایک دوسرے پر اِس قسم کے الزامات نہ لگائیں جن سے ملک کی جڑیں کھوکھلی ہو جائیں۔ پاکستانی سیاستدانوں کو یہ بات ضرور مد نظر رکھنی چاہئے کہ امریکی سی آئی اے اپنے ملک کے میڈیا کو استعمال کرتے


    ہوئے ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہے ،جیسا کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ طالبان پنجاب پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ حکومت انکے خلاف کاروائی کرنے کے حوالے سے ہچکولے لے رہی ہے۔امریکی میڈیا اور دانشور حلقوں کی جانب سے پنجاب میں آپریشن کئے جانے کے حوالے سے دن بدن دبائو بڑہ رہا ہے ۔امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت اِس خطے میں جس بڑی کاروائی کی تیاریوں میں مصروف ہے اسکے لئے امریکی عوام اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے امریکی انتظامیہ نے مرحلہ وار پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے ۔وہ پنجابی طالبان کا واویلہ کر رہا ہے کہ اب خطے کو افغان طالبان اور القاعدہ سے زیادہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے طالبان سے خطرہ ہے ۔ امید ہے کہ آصف خان صاحب اور دیگر ایسے تمام سیاستدانوں کو امریکی انتظامیہ کی خواہش کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ وہ کیا چاہتے ہیں ۔یہاں ایک بار پھر میں ملک کے تمام سیاستدانوں سے گزارش کروں گا کہ جس ایشو پر بیان دیں اُس کا بخوبی جائزہ لیں اور صرف میڈیا کی خبروں کو بنیاد بنا کر ایشوز پر نہ بولیں کیونکہ اِن دنوں امریکی سی آئی اے کا میڈیا انتہائی متحرک نظر آ رہا ہے۔بہر حال بات چل رہی تھی آصف خان صاحب کے ساتھ صحافیوں کی گفتگو کی،جہاں شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے کسی سیاستدان کا ذکر آئے گا وہاں اِس ضلع کی سیاسی صورتحال کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ  وہاں کے سیاسی کارکنوں کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔شیخوپورہ میں کچھ عرصہ  قبل پیپلز پارٹی نے اپنا مقام کھونا شروع کردیا تھا اسکی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے اہم رہنمائوں نے پارٹی کارکنوں کے جذبات کو نظر انداز کرکے ڈرائنگ روم سیاست شروع کردی۔ملک مشتاق احمد اعوان جنہوں نے شیخوپورہ کے جیالوںکے ووٹوں کے بل بوتے پر بطور سینئر منسٹر اقتدار انجوائے کیا اورشائد آج بھی ایوانِ صدر اور گورنر ہائوس میں انہی جیالوں کے نام پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں لیکن افسوس کہ یہاں حالات کچھ مختلف ہیں۔مشتاق اعوان صاحب عرصہ دراز سے شیخوپورہ کو خیر باد کہہ چکے ہیں جسکی وجہ سے جیالے اُن سے خفانظر آتے ہیں جبکہ دوسر ی جانب آصف خان جوکہ نہ صرف جیالوں کے ساتھ مکمل رابطے میں ہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی اُنہیں پسند کرنے لگی ہے ،مشتاق اعوان کے لاہور شفٹ ہونے کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت آصف خان کی کارکردگی دیکھتے ہوئے اُنہیں شیخوپورہ میں ایم این اے یا ایم پی اے کا الیکشن لڑوائے کیونکہ جتنی تیزی کے ساتھ مشتاق اعوان جیالوں کے دلوں سے نکلے ہیں اُتنی ہی تیزی کے ساتھ آصف خان نے نہ صرف جیالوں بلکہ مسلم لیگیوں کے دلوں میں بھی جگہ بنا لی ہے ،اسکی زندہ ترین مثال یہ ہے کہ چند روز قبل شیخوپورہ کے پرانے مسلم لیگی دو بھائیوں حاجی جاوید اقبال سابق چئیرمین بلدیہ اور حاجی فلک شیر سابق صدر مسلم لیگ لائرز ونگ نے آصف خان پر اعتماد کرتے ہوئے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے ۔اِن دو بھائیوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کی وجہ سے شیخوپورہ میں پارٹی مظبوط ہوئی ہے بلکہ مسلم لیگ (ن) بالخصوص حاجی نواز گروپ کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے کیونکہ اگر پیپلز پارٹی نے آصف خان کو شیخوپورہ شہر سے ایم این اے اور حاجی فلک شیر کو ایم پی اے کا ٹکٹ دے دیا تو اُنکے وسیع حلقہ احباب کی وجہ سے شیخوپورہ شہر میں یہ دونوں اُمیدواران مسلم لیگ (ن) اور (ق) کو مشکل میں ڈال دیں گے۔شہر شیخوپورہ میں بہت زیادہ آرائیں برادری ایسی ہے


    جس پر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے حاجی جاوید اقبال اور حاجی فلک شیر اثر انداز ہوں گے اور آسانی کے ساتھ ایم پی اے کا الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے جبکہ دوسری جانب ایک لمبے عرصہ سے پیپلز پارٹی کے پاس ایم این اے کا اُمیدوار نہ تھا لیکن آصف خان  کا کارکنوں کے ساتھ مکمل رابطہ اور پارٹی کے لئے دِن رات کام اِس بات کی علامت ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے لئے اچھے اُمیدوار ثابت
     ہونگے۔دوسری جانب مسلم لیگ (ن) شیخوپورہ میں دن بدن کمزور ہورہی ہے جسکی سب سے بڑی وجہ  (ن) کے رہنمائوں کا کارکنوں کے ساتھ کمزور رابطہ اور شہر میں بڑھتے ہوئے تجاوزات،غیر قانونی اڈے اور جرائم میں اضافہ ہے ۔یہاں میں شیخوپورہ کے سیاسی رہنمائوں سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ شہر کے بڑھتے ہوئے مسائل پر قابو پانا صرف ایک پارٹی کا کام نہیں بلکہ ہر سیاسی رہنماء کی ذمہ داری ہے ،اس لئے تمام جماعتوں کے سیاسی رہنماء شہر کے مسائل حل کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کریں۔


    محمد اکرم خان فریدی (کالم نگار)

  2.  گولی گالی اور سرکار
ضمیر آفاقی
عوام کی آواز
بحثیت  مجموعی ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم آج تک نہ ہی قوم بن سکے اور نہ ہی اسلام ہمارئے دلوں  میں اپنی اصل حثیت میں جگہ بنا سکا  ہم قومی سطح پر ہجوم کی طرح سے زندگی گزارتے ہیں اور مذہبی حوالے سے بھی ہم ٹکڑیوں میںبٹے ایک ہجوم کا ہی منطر پیش کرتے ہیں ہم فرقوں میں بٹے ہوئے ایک اور طرح  کا ہجوم ہیں اور قوموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ترقی اور عروج انہی افراد کے حصے میں آیا جو کسی بھی ایک آئیڈ یا لوجی پر چلتے ہوئے منزل کو پا گئے، اسلام انسان کو دوسرئے انسانوں سے جڑئے رہنے کا درس دیتا ہے،جس کی بنیادی تعلیمات میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ تمہیں ایک امت واحدہ کے طور پر اس طرح سے زندگی گزارنی ہے کہ جس میں اگر کسی ایک فرد کو کوئی تکلیف پہنچے تو اس کی تکلیف کوسوں دور رہنے والے کو بھی اسی طرح محسوس ہو جس طرح تکلیف میں مبتلا شخص کو ہوتی ہے مگر  ہوا کیا اور کیا ہو رہا ہیں حاملین اسلام کا یہ عالم ہے کہ اپنے پڑوسی سے بھی بے خبر ہیں کہ وہ کس عالم میں اپنے روز شب بسر کر رہا ہے  اسلام انسان اور انسانیت کے حقوق اس کے عزو شرف پر اتنا زور دیتا ہے کہ کسی دوسرے مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی جبکہ ہم حاملیں اسلام اسی انسان کو جو قران اور خالق کائینات کا مخاطب ہے کس طرح ذلیل و خوار کر رہے اس کے بتانے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ اس کے مظاہرئے ہم وطن عزیز  کے چپے چپے پر دیکھ رہے ہیں جنرل ضیا الحق نے مذہبی انتہا پسندی کی جو فصل بوئی تھی اسے آج ہم کاٹ رہے ہیں   ملک میں جو کچھ مذہب کے نام پر ہو رہا ہے یہ باعث تشویس تو ہے ہی مگر باعث شرم بھی ہے  آج کے حکمرانوں کے لئے اس میں کئی سبق ہیں اور مشورہ بھی ہے کہ وہ مذیبی انتہا پسندی، فرقہ واریت ،نفرت اور تعصب کو فروغ دینے والے عوامل  کو روکنے کی کوئی سبیل کریں ورنہ یہ جن ہمیں بری طرح کھا جائے گا،یوں لگتا ہے جیسے اس ملک کے مسائل میں دن بدن اضافے کا سبب مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک نہ تو ترقی کر رہا ہے اور نہ ہی یہاں امن و امان کے ساتھ روزگار میں اضافہ ہو رہا ہے بیرون ممالک سے سرمایہ کاری رک چکی ہے اور ملک کے اپنے لوگ بھی مزید کوئی سرمایا کاری کرنے پر تیار نہیں ہیں جس کا نتیجہ  ہے کہ یہاں دن بدن بھوک کا ناچ بڑھتا جارہا ہے اور خود کشیوں  کے ساتھ جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے حکومت اور قوم ان مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے اور یوں مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی کو فروغ مل رہا ،پاکستان میں حالات کی خراب کاری پر جب کوئی ادرہ اپنی رپورٹ پیش کرتا ہے تو اسے بھی ہم ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے بتایا جارہا کہ  پاکستان کے کل دینی مدارس کا 70 ٪جنوبی پنجاب میں پھل پھول رہا ہے۔پاکستان میں ٹریبون نامی ادارے کے سروے کے مطابق15 لاکھ طلبہ کا80 فیصد لوئر پنجاب کے مدارس میں زیر تعلیم ہے۔ مظفرگڑھ ڈی جی خان لیہ لودھراں راجن پور بہاولپور اس وقت طالبانی سرگرمیوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے 90 فیصد لوگ بھوک و ننگ کی جیتی جاگتی  تصویر بن چکے ہیں۔غربت کی لکیر سے نیچے غمناک زندگی گزارنے والے خاندان اپنے بچوں کو مدارس کے حوالے کردیتے ہیں تاکہ وہ مدارس کے ٹکڑوں پر تعلیم حاصل کر سکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جنوبی پنجاب میں مفت تعلیم کی سہولت گھر گھر پہنچائے۔غربت کے خاتمے کا جامع پروگرام شروع کیا جائے تاکہ معصوم بچے مدارس کی انتہاپسندی کی بیڑیوں کا مقدر نہ بن سکیں۔جنوبی پنجاب کے باسیوں کو پنجابی طالبان کے متعلق آگاہی دی جائے تاکہ وہ اپنے ارد گرد پھیلنے والی انتہاپسندی اور سرائیکی طالبانیت کا قلع قمع کرسکیں۔حکومتی ادارے مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کو روزگار مہیا کریں تاکہ وہ بیروزگاری سے تنگ اکر جہادی تنظیموں کی طرف راغب نہ ہوں۔سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں مدارس کی سیاسی حمایت سے گریز کرنا چاہیے ۔
اب آخر میں ان چند ای میل کا ذکر جو میرے گزشتہ کالم کے حوالے سے موصول ہوئی ہیں جن احباب نے یہ ای میل بیھجی ہیں ان میں اکثریت ایسے ہی افراد کی ہے جو گولی اور گالی کی زبان میں بات کرتے ہیں جن کے نزدیک  دلیل اور دلائل کوئی معنی نہیں رکھتے اگر کوئی چیز معنی رکھتی ہے تو وہ ان کا اپنا طرز استعدلال اور جس مکتبہ فکر کے یہ حامل ہیں اس کے مطابق اسلام کی تشریع ہے میں ان احباب کے لکھے ہوئے الفاط کا زکر اپنے کالم میں نہیں کر سکتا کیونکہ جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ اخلاقی لحاظ سے اس قدر انحطاط پزیر ہے کہ اسے مزید پھیلایا نہیں جا سکتا لیکن اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ جب کسی کے پاس دلیل ختم ہو جائے اور وہ مرنے مارنے پر تل جائے تو سمجھ لو کہ اس کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں رہا ،میں عموماً لوگوں کے مائنڈ سیٹ کی بات کرتا ہوں کہ جب تک یہ تبدیل نہیں ہو گا کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی اس کی ایک مثال ہمارا پولیس کا نظام بھی ہے کہ اس ادارئے کے افراد کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کے باوجود ان کے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی جس کی بنیادی وجی اس مائند سیٹ کی ہے جو ان کا بن چکا ہے جب تک اسے تبدیل نہیں کیا جاتا آپ جتنی مرضی مراعات میں اضافہ کر دیں کچھ نہیں ہو گا اسی طرح معاشرے کے دیگر طبقات ہیں خصوصاٍ مذہبی فرقے انہیں جو تعلیم بچپن سے دی گئی ہے یہ اسی کو حرف آخر سمجھ کر اسی پر عمل پیرا ہیں اور جو ان کا عقیدہ ،نظریہ یا فرقہ ہے اس سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، لفظ اسلام کا جو معنی مجھے سمجھ آیا ہے وہ ہے اعتدال،یعنی اپنی پوری زندگی کے تمام معاملات میں میانہ روی اخیتار کرنی چاہیے ،اس کے علاوہ اسلام امن اور سلامتی کاضامن ہے اب جو حالت ہم نے اسلام کی وطن عزیز میں بنا دی ہے ہر طرف قتل و غارت بم دھماکے، کفر کے فتووں کی بڑھتی ہوئی فیکٹریاں اپنے فرقے کے علاوہ دوسرئے کو دائرہ اسلام سے باہر سمجھنا کیا ایسے رویوں کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہے؟
اس لئے ہم  ان لوگوں کو جو ہم پر فتوئے لگاتے اور قتل کرنے کی بات کرتے ہیں کی باتوں کا کیا جواب دیا جائے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کا مطالعہ تعصب سے پاک ہو کر کیا جائے جس میں حرمت جان کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے  ۔

 
ujaalanews.com | OnLine Tv Chennals | Shahid Riaz