این آر او:سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ


سپریم کورٹ نے 287صفحات پر مشتمل این آر او کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے تحریر کیا۔ عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 62, 25, 13, 12, 8, 4 ایف ‘ (1)63 ایچ‘ 63 ون پی‘ 89‘ 175کو 227 سے متصادم قرار دیا ہے اور این آر او کے تحت مقدمات کے خاتمے یا ملزمان کی بریت کے فیصلوں کو شروع سے ہی کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کو اس طرح تصور کیا جائے گا جیسے یہ فیصلے کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔ این آر او کی سیکشن2 کے تحت جن مقدمات کو ختم کیا گیا یا ملزمان کو بری کیا گیا یا پھر اس کے سیکشن7 کے تحت جن عوامی عہدے رکھنے والے افراد کے خلاف کارروائی کو ختم کیا گیا ان میں ایسے تمام مقدمات بحال تصور کئے جائیں گے جن کے بارے میں عدالت میں تفصیل پیش کی گئی یا پھر جن مقدمات کی کارروائی کو عدالت کے نوٹس میں نہیں لایا گیا۔ ایسے تمام مقدمات 5اکتوبر 2007ء سے پہلے کی پوزیشن پر بحال تصور ہوں گے۔ عدالت نے تمام متعلقہ عدالتوں کو ہدایت کی ہے کہ ایسے تمام افراد کے این آر او کے تحت ختم مقدمات کے ملزمان کو طلب کیا جائے اور تمام بند مقدمات کو اسی مرحلے سے شروع کیا جائے جہاں سے ان کو ختم کیا گیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ 342پر مشتمل قومی اسمبلی کاایوان این آر او کو قانون بنانے پر رضامند نہ ہوا۔ عدالت نے محترمہ بے نظیربھٹو کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ این آر او مخصوص طبقے کو فائدہ دینے کے لئے جاری کیا گیا۔ جن کے خلاف یکم جنوری 1986ء سے2 1اکتوبر 1999 کے درمیان مقدمات درج ہوئے۔ این آر او کو قومی مفاہمت کے مقاصد کے حصول کے لئے جاری نہیں کیا گیا۔ بلکہ ان مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لئے جاری کیا گیا جن کے خلاف مندرجہ بالا تاریخوں میں مقدمات درج کئے گئے۔ این آر او کی دو شقوں سے واضح ہوگیا ہے کہ اس سے چھوٹے یا سنگین جرائم میں ملوث افراد یا بدعنوانی میں ملوث عوامی عہدیداروں کو فائدے پہنچائے گئے۔ اس لئے این آر او کو قومی مفاہمت کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے ایک قانون قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پوری قوم نے این آر او کے تحت فائدہ نہیں اٹھایا۔ بلکہ اس کو ایسے مفادات کی خاطر جاری کیا گیا جن کا قومی مفاہمت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ اس کو انفرادی مفاہمت کی خاطر جاری کیا گیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں این آر او کے تحت ختم کئے گئے مقدمات کی جلد سماعت کے لئے ہدایات بھی جاری کی ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں نائیجیریا اور فلپائن کے دو سابق صدور کی لوٹی ہوئی رقم کو ملک میں واپس لینے کے حوالے سے مقدمات کو ریفرنس کے طور پر بیان کیا ہے جس کے مطابق فلپائن کے آمر مارکوس کی جانب سے لائی گئی دولت کو جس طرح سوئٹزرلینڈ سے واپس لایا گیا اس کی مثال بنایا گیا ہے۔ فلپائن کے صدر مارکوس نے 625 ملین ڈالر کی رقم لوٹی تھی جبکہ نائیجیریا کے صدر اباچا نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم لوٹ کر باہر بھجوائی اور اس رقم کو سوئٹزرلینڈ سے واپس نائیجیریا لایا گیا۔ عدالت نے کہا کہ این آر او کے تحت ختم کئے گئے سوئس مقدمات کی بحالی کا حکم دیا ہے اور حکومت سے کہا ہے کہ سوئس مقدمات کی بحالی کے لئے درخواست دے اور یہ تحریر کیا ہے کہ اٹارنی جنرل کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے بارے میں کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔ عدالت عظمیٰ نے ریویو بورڈ کے اختیارات کو کالعدم قرار دیا ہے جس نے این آر او کے تحت مقدمات کو ختم کرنے کی سفارش کی۔ اب یہ عدالتیں طے کریں گی کہ مقدمات درست بنائے گئے تھے یا غلط، عدالت نے کہا کہ صدر نے ان لوگوں کے بنیادی حقوق کا بالکل خیال نہ رکھتے ہوئے قومی مفاہمتی آرڈیننس 2007ء جاری کر دیا جنہوں نے اس کے تحت فائدہ حاصل نہیں کیا۔ صدر آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت کچھ حدود و قیود میں رہتے ہوئے آرڈیننس جاری کر سکتا ہے لیکن ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکتی جو کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کے منافی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ این آر او کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس لئے اس کے تحت عوامی عہدیداروں نے جو فائدہ حاصل کیا ہے وہ بھی برقرار نہیں رہ سکتا۔ آئین کے آرٹیکل 25کے مطابق تمام شہری برابر ہیں۔ این آر او اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

عدالتی فیصلے کے بعد این آر او زدہ افراد کا مستقبل کیا ہوگا؟

 
ujaalanews.com | OnLine Tv Chennals | Shahid Riaz