تم ہی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے؟

سابق صدر پرویز مشرف سیاست میں قدم رکھنے کے باوجود اپنے آمرانہ ذہنی رویے سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔ دو بار آئین کو توڑنے، لال مسجد میں قتل عام کرانے، شخصی حکمرانی کے لئے ملکی آزادی کا سودا کرنے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت بے شمار بے قصور شہریوں کو فروخت کرنے، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو معطل کرنے، فوج کشی کے ذریعے بلوچوں کے احساس محرومی کو بیزاری کی سطح تک پہنچانے، خیبر پختونخوا کو شعلوں کی نذر کرنے اور میڈیا کا گلا گھونٹنے جیسے طویل ریکارڈ کے باوجود سیاسی پارٹی کی تشکیل کے اعلان سے جو حلقے ان سے جمہوری اقدار کے احترام اور متانت کی توقع رکھتے تھے انہیں جلسے میں کی گئی تقریر سے مایوسی ہوئی جس میں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر شدید ذاتی حملے کرتے ہوئے بہت غیرشائستہ لب و لہجہ اختیار کیا گیا اور اخلاق سے عاری انداز اختیار کیا گیا۔ انہیں عقل سے فارغ البال کہا، یہی نہیں بلکہ انہیں کہا کہ شکل اچھی نہیں تو بات تو اچھی کرلو،اگر دوسرے بھی ان کے جواب میں ذاتی حملے کرنے اور کیچڑ اچھالنے لگے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بات کہاں تک جاسکتی ہے۔ ہمارے ملک کی سیاست میں ایسے ادوار آتے رہے ہیں جب کسی سیاستداں ایک دوسرے کے خلاف غیر مہذب زبان استعمال کی ۔ سابق صدر کو وطن اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ان جذبات کا احساس ہونا چاہئے۔لیکن شاید لوگ نہیں جانتے کہ اس سے قبل بھی الیکشن کی مہم کے دوران سیاسی لیڈراسی طرح کی دشنام طرازیوں پر اتر آتے ہیں، رانا ثناء اللہ نے بابر اعوان کو کالی بھیڑ کہا، اور فوزیہ وہاب نے رانا ثناء اللہ کربسوں میں کھڑے ہو کر منجن بیچنے والا کہا، کئی سال پہلے بھٹو مرحوم نے اصغر خان کو آلو کہا کرتے تھے، اور ایک ممتاز سیاستدان میاں دوممتاز خان دولتانہ مرحو م کو چوہا کہا تھا، اس طرح کی عامیانہ ذوق کی باتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھلانے کے لیے کی جاتی ہیں،

 
ujaalanews.com | OnLine Tv Chennals | Shahid Riaz