پرویزمشرف کا استقبال کون کر ے گا ؟

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے پاکستان واپس آکر عملی سیاست میں حصہ لینے کی تیاریاں کر لی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے پرویز مشرف فاؤنڈیشن کے قیام کا بھی اعلان کیا ہے۔ سابق صدر نے انتہائی قلیل وقت میں سیلاب زدگان کے لیے کروڑوں روپے اکٹھے کر کے یہ بات بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لوگ اب بھی ان پر اعتبار کرتے ہیں اور ان کی صرف ایک اپیل پر دل کھول کر امداد دینے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ جنرل مشرف کی ان سرگرمیوں کے جواب میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف پاکستان میں کئی قسم کے مقدمات قائم ہیں اور اگرانہوں نے پاکستان واپس آنے کی کوشش کی تو ان کا استقبال چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے۔یہ الگ بات ہے کہ انہیں رخصت یوسف رضا گیلانی ہی حکومت نے کئی توپوں کی سلامی دے کر کیا تھا۔ لیکن اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ جو کچھ جنرل مشرف کرتے رہے ہیں پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت بھی وہی کچھ کر رہی ہے۔ مہنگائی اس وقت بھی زوروں پر تھی۔ مہنگائی اس وقت بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ بے روزگاری کے خاتمے لیے جنرل مشرف نے بھی کوئی اقدام نہیں کیا تھا ۔ موجودہ اتحادی بھی عام لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے کسی قسم کی منصوبہ بندی سے عاری ہیں۔قتل ، ڈکیتی ، چوری، راہزنی کی وارداتیں اس وقت بھی عام تھیں۔ آج بھی جاری و ساری ہیں۔خودکش بم دھماکے اس وقت بھی روزمرہ کا معمول تھے۔آج بھی اس عفریت سے نجات ممکن نہیں۔ بلوچستان میں آپریشن جنرل مشرف نے بھی کیا تھا۔ یہی ارادے اب وزیرداخلہ رحمٰن ملک نے بھی ظاہر کیے ہیں۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اس بھی عام تھی۔ اب بھی اس پر کنٹرول کی کوئی سبیل نہیں نکالی گئی۔میڈیا اور عدلیہ کے خلاف جنرل مشرف بھی صف آراء تھے ۔ موجودہ حکومت بھی اس سے دو ہاتھ آگے جا کر میڈیا اور عدلیہ کا گلا گھونٹنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔اس صورتحال میں اگر پرویزمشرف وطن واپس آکر سیاست میں حصہ لیتے ہیں تو عوام الناس کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آسکتی ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہمیں تلاش کرنا ہے۔ لوگ یقینی طور پر موجودہ حکمرانوں سے انتہائی بدظن ہیں۔ لیکن اس کے متبادل کے طور پر کیا انتظام لایا جائے ۔ اس سلسلے میں ہر ایک اپنی اپنی سوچ اور رائے ہو سکتی ہے۔ کوئی ایسا انتظام جس میں ٹیکنوکریٹس ہوں یا الطاف حسین کے بقول محب وطن جرنیل ہوں۔یا عدلیہ کی زیرنگرانی بنگلہ دیش طرز کا کوئی نظام لایا جائے۔ یا مشرف کو دوبارہ مسند اقتدار پر بٹھایا جائے۔ اگر وہ واپس آتے ہیں تو ان کا استقبال کون کرے گا۔ کیا واقعی ان کے خلاف اتنے مقدمات ہیں کہ انہیں چیف جسٹس کی عدالت میں حاضری بھرنی پڑے۔ کیا عوامی سطح پر ان کی اتنی مقبولیت ہے کہ عوام ان کے استقبال کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ کیا فوج میں اب بھی ان کے لیے نرم گوشہ موجود ہے کہ ایک ادارے کے طور پر ان کی واپسی کی راہ ہموار کی جائے۔آخر ان کا استقبال کون کرے گا؟

 
ujaalanews.com | OnLine Tv Chennals | Shahid Riaz