عالمی اور علاقائی طاقتوں کے طالبان سے مذاکرات؟



کیا طالبان سے ممکنہ مذاکرات خطے میں امن کا باعث ہوسکتے ہیں؟

عالمی طاقتیں واقعی طالبان سے مذاکرات میں سنجیدہ ہیں یا یہ کوئی حکمت عملی ہے؟ افغانستان میں بڑے پیمانے پر تباہی ، بربادی اور انسانی ہلاکتوں کے بعد امریکہ اور برطانیہ سمیت عالمی و علاقائی طاقتیں بالٓاخر مذاکرات کی طرف جاتی نظر آرہی ہیں۔ ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ افغانستان کے 6 ہمسایہ ملکوں کے علاوہ دیگر اہم ملکوں پر مشتمل علاقائی کانفرنس نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں طالبان سے مفاہمت کے ایک منصوبے کی حمایت کی ہے جو افغان صدر حامد کرزئی نے پیر کے روز پیش کیا تھا۔ استنبول اعلامیے کے مندرجات اور علاقائی کانفرنس میں کہی گئی باتیں غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہیں تاہم مجوزہ منصوبے پر عملدر آمد کی صورتیں اور اس کی کامیابی یا ناکامی کے امکانات و اثرات غور طلب ہیں۔ کرزئی فارمولا یقینی طور پر امریکہ سمیت افغانستان میں موجود غیرملکی طاقتوں کی سوچ بچار اور مرضی کے مطابق سامنے آیا ہے۔ علاقے میں امن و امان کے قیام کے لئے مذاکرات کی اہمیت بلاشبہ مسلمہ ہے پھر بھی مستقبل کی منصوبہ بندی میں علاقے کی زمینی حقیقتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہوگا۔ ”سکس پلس ٹو“ کہلانے والے اس علاقائی گروپ کے اجتماع میں پاکستان، ترکی ، چین ، ایران ، ازبکستان ، تاجکستان اور ترکمانستان کے ساتھ امریکا ، برطانیہ کے علاوہ روس ، جاپان ، جرمنی، فرانس اور سعودی عرب سمیت عالمی اداروں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ امریکہ کی زیر قیادت 40 ممالک کے اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر حملے اور قبضے کے سوا آٹھ سال بعد ہی سہی ، بڑی طاقتوں نے اس کانفرنس میں تباہ حال افغانستان کی خود مختاری ، آزادی اور علاقائی سالمیت کے احترام کی بات کی۔ قبل ازیں استنبول ہی میں پاکستان ، ترکی اور افغانستان کے سربراہی اجلاس کے دوران پیر کے روز افغان صدر حامد کرزئی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ہتھیار ڈالنے اور القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والے طالبان کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ اسی روز افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل میک کرسٹل کا یہ بیان سامنے آچکا ہے کہ لڑائی بہت ہوچکی ، اب طالبان سے مذاکرات کئے جائیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جنگوں کا آخر کار سیاسی حل ہی نکالا جاتا ہے۔ کچھ عرصے سے افغانستان میں نیٹو افواج کی قیادت اور کئی امریکی حلقوں سے بھی ایسی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جن کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ امریکہ افغانستان میں جنگ جیت نہیں سکتا، اسے مقامی لوگوں سے مذاکرات کرکے اپنی باعزت واپسی کی صورت نکالنی چاہئے۔ برطانوی افواج تو اپنے زیر انتظام صوبوں میں طالبان سے سمجھوتوں کے ذریعے دوسرے علاقوں کی نسبت بہتر پوزیشن میں رہنے کا تجربہ کر بھی چکی ہیں۔ مگر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جب بھی حکومت نے مقامی لوگوں سے امن معاہدے کئے یا بات چیت کی اسے مغربی اتحادیوں کی طرف سے ناکام بنانے کے اقدامات کئے گئے اور اسلام آباد سے فوجی کارروائیوں میں تیزی لانے کے مطالبات کئے جاتے رہے ہیں، جو اب بھی جاری ہیں۔ مذاکرات کا اہتمام مقامی روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے افغانستان اور پاکستان دونوں ملکو ں کو جاتا ہے کیونکہ سرحد کے دونوں طرف رہنے والے قبائل اس سے متاثر ہورہے ہیں، امن کی خاطر مذاکرات ضروری ہیں۔

 
ujaalanews.com | OnLine Tv Chennals | Shahid Riaz