آئی ایس ایس کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا نے کہا ہے
کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد فوجی بغاوت کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ انہوں نے میمو
کمیشن کو آئی ایس آئی کے سیکشن ایس کے متعلق معلومات دینے سے معذرت کر لی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی صدارت میں میمو کمیشن کے اجلاس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر)شجاع پاشا اور کشمیری رہنما یاسین ملک موجود تھے۔ حسین حقانی آج پیش نہیں ہوئے۔ احمد شجاع پاشا نے لندن میں منصور اعجازسے ملاقات اور اپنے بیان حلفی کی تصدیق کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ 22 اکتوبر کو لندن میں منصور اعجاز سے ملے نصور اعجاز نے 35 بلیک بیری پیغامات دکھائے۔ 23 اکتوبر کو وہ لندن سے وطن واپس پہنچے اور اگلے روز آرمی چیف کو ملاقات کے متعلق بریفنگ دی۔ احمد شجاع پاشا نے بتایا کہ انہوں نے 18نومبرکوصدر آصف زرداری کو میمو سے متعلق آگاہ کیا، جس پر صدر کا کہنا تھا کہ معاملہ قومی سلامتی سے متعلق اور انتہائی اہم ہے۔ صدر زرداری کا یہ بھی کہنا تھا کہ حسین حقانی ٹھیک آدمی ہے۔ ایک سوال پر شجاع پاشا نے کہا کہ حسین حقانی کے ایوان صدر میں ٹھہرنے کا ان کے پاس ثبوت نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ منصور اعجاز اور حسین حقانی کی ملاقات کی انکوائری نہیں کی گئی۔ حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری کے ایک سوال کے جواب میں احمد شجاع پاشا نے کہا کہ منصور اعجاز نے بلیک بیری پیغامات، ہینڈ سیٹ اور کمپیوٹرکےسوا کوئی ثبوت نہیں دیا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ منصور اعجاز کا آئی ایس آئی، فوج اور ایٹمی پروگرام کے حوالے سے تنقیدی رویہ ہے۔ کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے امریکی شہری سے ملاقات کی اپنے سفیر سے نہیں ملے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا منصور اعجاز کی طرح حسین حقانی نے بھی ہینڈ سیٹ دکھائے جس پر شجاع پاشا کا کہنا تھا کہ حسین حقانی نے ہینڈ سیٹ نہیں دکھائے۔ ایک اور سوال پر شجاع پاشا کا کہنا تھا کہ اگر بلیک بیری کے دونوں ہینڈ سیٹ ہوں تو آئی ایس آئی کے پاس پیغامات کے تبادلہ کا موازنہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سوال پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ 2مئی کے بعد فوجی بغاوت کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ احمد شجاع پاشا نے کمیشن کو بتایا کہ آئی ایس آئی میں آٹھ ونگ ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آئی ایس آئی کا سکیشن ایس کیا ہے جس پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ اس کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے پھر سوال کیا کہ کیا یہ افغانستان سے متعلقہ ہے لیکن احمد شجاع پاشا کا جواب تھا کہ وہ کچھ نہیں بتا سکتے۔ کمیشن نے جنرل پاشا سے کیےگئے سوالوں کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا ،، جس پر حسین حقانی کے وکیل نے اعتراض کیا ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی صدارت میں میمو کمیشن کے اجلاس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر)شجاع پاشا اور کشمیری رہنما یاسین ملک موجود تھے۔ حسین حقانی آج پیش نہیں ہوئے۔ احمد شجاع پاشا نے لندن میں منصور اعجازسے ملاقات اور اپنے بیان حلفی کی تصدیق کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ 22 اکتوبر کو لندن میں منصور اعجاز سے ملے نصور اعجاز نے 35 بلیک بیری پیغامات دکھائے۔ 23 اکتوبر کو وہ لندن سے وطن واپس پہنچے اور اگلے روز آرمی چیف کو ملاقات کے متعلق بریفنگ دی۔ احمد شجاع پاشا نے بتایا کہ انہوں نے 18نومبرکوصدر آصف زرداری کو میمو سے متعلق آگاہ کیا، جس پر صدر کا کہنا تھا کہ معاملہ قومی سلامتی سے متعلق اور انتہائی اہم ہے۔ صدر زرداری کا یہ بھی کہنا تھا کہ حسین حقانی ٹھیک آدمی ہے۔ ایک سوال پر شجاع پاشا نے کہا کہ حسین حقانی کے ایوان صدر میں ٹھہرنے کا ان کے پاس ثبوت نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ منصور اعجاز اور حسین حقانی کی ملاقات کی انکوائری نہیں کی گئی۔ حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری کے ایک سوال کے جواب میں احمد شجاع پاشا نے کہا کہ منصور اعجاز نے بلیک بیری پیغامات، ہینڈ سیٹ اور کمپیوٹرکےسوا کوئی ثبوت نہیں دیا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ منصور اعجاز کا آئی ایس آئی، فوج اور ایٹمی پروگرام کے حوالے سے تنقیدی رویہ ہے۔ کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے امریکی شہری سے ملاقات کی اپنے سفیر سے نہیں ملے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا منصور اعجاز کی طرح حسین حقانی نے بھی ہینڈ سیٹ دکھائے جس پر شجاع پاشا کا کہنا تھا کہ حسین حقانی نے ہینڈ سیٹ نہیں دکھائے۔ ایک اور سوال پر شجاع پاشا کا کہنا تھا کہ اگر بلیک بیری کے دونوں ہینڈ سیٹ ہوں تو آئی ایس آئی کے پاس پیغامات کے تبادلہ کا موازنہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سوال پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ 2مئی کے بعد فوجی بغاوت کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ احمد شجاع پاشا نے کمیشن کو بتایا کہ آئی ایس آئی میں آٹھ ونگ ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آئی ایس آئی کا سکیشن ایس کیا ہے جس پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ اس کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے پھر سوال کیا کہ کیا یہ افغانستان سے متعلقہ ہے لیکن احمد شجاع پاشا کا جواب تھا کہ وہ کچھ نہیں بتا سکتے۔ کمیشن نے جنرل پاشا سے کیےگئے سوالوں کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا ،، جس پر حسین حقانی کے وکیل نے اعتراض کیا ۔