انکم ٹیکس کی ادائیگی سے فرار کیوں؟

پاکستان میں ایک روایت یہ رہی ہے کہ امراء حب الوطنی کا رونا تو روتے ہیں لکین انکم ٹیکس کی ادائیگی سے کتراتے ہیں جبکہ بے چارے غریب عوام خون پسینے کی کمائی سے کچھ نہ کچھ انکم ٹیکس ضرورادا کرتے ہیں لیکن انہیں اس مد میں مراعات بھی حاصل نہیں ہوتیں۔امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امراء کو ٹیکس سے بچانے والے ممالک امداد کی توقع نہ رکھیں، بعض ممالک اپنی ایلیٹ کلاس کو تو ٹیکس سے بچاتے ہیں مگرامریکا سے امداد کی توقع رکھتے ہیں۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کی نجی آمدن کا تو کیا ہی ذکر وہ تو تنخواہ پر بھی مکمل ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ گزشتہ روز وزیراعظم نے وضاحت کی کہ وہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے باقاعدگی سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ تاہم ان کے اس دعوے کی تردید آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ نے کی جس میں کہا گیا ہے کہ اقتدار کے پہلے سال میں انہوں نے اپنی تنخواہ پر مکمل ٹیکس ادا نہیں کیا۔ آڈٹ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ نہ صرف وزیراعظم بلکہ ان کے اسٹاف آفیسرز بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان شبیر انور نے کہا کہ کٹوتی میں فرق اور حتمی اسیسمنٹ کے بعد وزیراعظم نے تنخواہ میں سے ٹیکس ادا کیا۔ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے تناظر میں کیا یہ ضروری نہیں ہر وہ شخص جو ٹیکس نیٹ میں آتا ہے ایمانداری سے ٹیکس ادا کرے۔
Read more »

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو عمر قید سے زیادہ سزا

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت نے چھیاسی سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ وہ گذشتہ کئی سال سے امریکی تحویل میں ہیں۔ اور ان پر وہیں کی ایک عدالت میں امریکی فوجیوں پر گولی چلانے کے الزام میں مقدمہ چلایا جا رہاتھا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق کراچی سے ہے ۔ انہوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم امریکہ میں مکمل کی ۔اور وہیں ملازمت بھی کرتی رہیں۔ بعدازاں نائن الیون کے واقعات کے بعد وہ امریکہ چھوڑ کر پاکستان آگئیں ۔اسی دوران امریکی تحقیقاتی اداروں نے ان پر القاعدہ کے لیے کام کرنے کا الزام لگایا۔اور مشرف دور حکومت میں ایک دن اچانک وہ ائرپورٹ سے اپنے گھر جاتے ہوئے راستے میں لاپتہ ہو گئیں۔کسی ادارے یا خفیہ ایجنسی نے انہیں تحویل میں لینے کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور پھر کئی سال بعد افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی جانب سے زخمی حالت میں ان کی گرفتاری کا انکشاف ہوا۔ان کی افغانستان میں موجودگی اور امریکی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ کی خبر کو دنیا بھر کے میڈیا نے نمایاں طور پر پیش کیا۔ بعدازاں انہیں امریکا منتقل کردیا گیا۔ اور انہیں سات مقدمات میں امریکی عدالت کی جانب سے اب چھیاسی سال کی قید سنائی گئی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے حوالے سے حکومت پاکستان بھی اپنی کوششیں کرتی رہی ہے۔علاوہ ازیں پاکستان میں سول سوسائٹی اور بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی انہیں ضمیر کی قیدی قرار دیتے ہوئے ان کی باعزت رہائی اور پاکستان واپسی کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ان کے اہل خانہ بھی ان پر لگائے جانے والے الزامات کی صحت سے انکار کرتے رہے ہیں۔اس تمام صورتحال کے باوجود امریکی عدالت کی جانب سے ایک خاتون کو اتنی کڑی سزا دیے جانے پر یقینی طور پر ضمیر عالم کو دھچکا لگا ہو گاکہ آخر امریکا جیسی سپر طاقت ایک نہتی خاتون سے اس قدر خائف کیسے ہو گئی کہ پہلے تو اسے ٹارچر کیمپوں میں رکھا گیا اورپھر اس پر کئی ایک مقدمات قائم کر کے اسے عمر قید سے بھی زیادہ کی سزاسنا دی گئی۔ آپ کے خیال میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ایسا قصور کیا ہو سکتا ہے کہ امریکی عدالت اتنی بڑی سزا سنانے پر مجبور ہوئی؟ کیا حکومت پاکستان اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کو یقینی نہیں بنا سکتی تھی ؟ ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ امریکی شہری نہیں تھیں۔ کیا ایک پاکستانی شہری کو امریکی عدالت کے ذریعے سزا سنائے جانے کو برحق قرار دیا جاسکتا ہے ؟ اگر افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام کو درست بھی مان لیا جائے تو کیا کسی بھی دوسرے ملک میں ہونے والے واقعے میں ملوث کسی بھی شخص کو کسی اور ملک میں منتقل کر کے اپنی مرضی و منشا کے مطابق سزا دی جاسکتی ہے ؟ اس سلسلے میں عالمی قوانین کیا کہتے ہیں ؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کیا سوچتے ہیں؟
Read more »

جامعات کے فنڈز میں کٹوتی کیوں؟

حکومت کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے فنڈ میں کٹوٹی کے اعلان کے بعد جامعات کے وائس چانسلر ز نے مصلحت سے بالاتر ہوکر غریب طلباء کے مفاد میں حکومت کے خلاف کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے ،ملک بھر کی 72 سرکاری یونیورسٹیاں 22 ستمبر کو مکمل طور پر تعلیمی بائیکاٹ کریں گی، اساتذہ، طلبہ و طالبات بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر وزیر خزانہ کے خلاف احتجاج اور استعفے کا مطالبہ کریں گے۔ فیڈریشن آف پاکستان اکیڈیمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر پروفیسر مہر سعید اختر اور پنجاب کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ظفرنے کیا۔انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں کلاسوں کابائیکاٹ ہو گا اور یوم سیاہ منایا جائیگا اس کے بعد پارلیمنٹ کے سامنے تمام وائس چانسلرز اور پروفیسرز اساتذہ وزیر خزانہ کے خلاف مظاہرہ کریں گے جامعات کی کم از کم اہم اور بنیادی ضروریات پوری کی جانی چاہییں، وائس چانسلر جامعہ کراچی پیرزادہ قاسم نے بتایا کہ ملک بھر کی جامعات کے لیے صرف 11 بلین روپے دیے جاتے ہیں جو بہت کم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جامعات فی الحال خود اپنے لیے فنڈز جمع نہیں کر سکتیں،طالب علموں کی فیس سے جامعات کی بمشکل4فیصد ضروریات پوری ہو پاتی ہیں اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانی طالب علموں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔پروفیسر جامعہ پنجاب مہر سعید اخترنے کہا ہے کہ وزیر خزانہ کا چاہیے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے فنڈز بڑھا دیے جائیں ،کیونکہ جامعات کے اخرجات بڑھ گئے ہیں ،جامعات کو رقم دینا سرمایہ کاری کرنا ہے،بنیادی ضرورت کا تعین کرکے اخراجات کے لیے فنڈز دیں تعلیم کبھی بھی حکومت کی ترجیحات میں نہیں رہی اور اگر فنڈز فراہم نہ کیے گئے تو ہم راست اقدامات کرینگے۔
Read more »

حکومت کی آئینی تبدیلی ممکن ہے؟

موجودہ حکومت کی کارکردگی پہ عوامی سطح پر انگلیا ں اٹھائی جارہی ہیں، ہر طرف سے یہی کہا جارہا ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری ، قتل و غارت گری پہ انتظامیہ کی خاموشی اور اب سیلاب زدگان کی فوری مدد کو نہ پہنچنا جیسے معاملات نے ہر بڑی اور چھوٹی سیاسی پارٹیوں کو یہ سوچنے سمجھنے مجبور کردیا ہے کہ حکومت میں تبدیلی لائی جائے۔ تاکہ ناقص کارکردگی کا ازالہ ہوسکے اس سلسلے میں الطاف حسین کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ حکومت اپنی اصلاح نہیں کرتی تو آئین کے تحت تبدیلی لائی جانی چاہیے، حکومت کی ناکامی کو جمہوریت کی ناکامیوں سے تشبیہ نہ دی جائے، میثاق جمہوریت پر عمل ہوتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی، صدر آصف علی زرداری سے صدارت یا وزارت عظمی نہیں مانگی صرف ملک کی بہتری چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں لیکن جس طرح قوم پر مظالم کیے گئے اس کا حساب ہونا چاہیے، مارشل لاء کی بات کرنا جرم ہے ، وزیراعظم سیلاب متاثرین کے لئے کمیشن بنانے کا وعدہ کرکے غائب ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ میثاق پاکستان کے نام پر تمام سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی اور ادارے پاکستانی مسائل کے حل کیلئے 25 سالہ پلان کا اعلان کریں میں اس کیلئے اپنی خدمات دینے کیلئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آج جمہوریت کو ناکام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور کچھ لوگ مارشل لاء لگانے کا کہہ رہے ہیں مگر پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے ہی وابستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ بڑے بڑے مذاق کئے ہیں جو شخص بھارت سے 90 ہزار فوجیوں کو رہا کروا کر لایا تھا اس کو پھانسی دی گئی اور جس جرنل نے دشمن کے سامنے ہتھیار پھینکے اس کو قومی پرچم میں سلیوٹ کے ساتھ دفنایا گیا، دنیا میں جمہوریت کامیاب ہو رہی ہے لیکن پاکستان میں اسے کیوں ناکام کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا رویہ اگر اسی طرح رہا اور اسے تبدیل نہ کیا گیا تو عوام بھی اس کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہو گی‘ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے‘ بہتر گڈ گورنس لائے اور عوامی 
 مسائل حل کئے جائیں۔
Read more »

پرویزمشرف کا استقبال کون کر ے گا ؟

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے پاکستان واپس آکر عملی سیاست میں حصہ لینے کی تیاریاں کر لی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے پرویز مشرف فاؤنڈیشن کے قیام کا بھی اعلان کیا ہے۔ سابق صدر نے انتہائی قلیل وقت میں سیلاب زدگان کے لیے کروڑوں روپے اکٹھے کر کے یہ بات بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لوگ اب بھی ان پر اعتبار کرتے ہیں اور ان کی صرف ایک اپیل پر دل کھول کر امداد دینے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ جنرل مشرف کی ان سرگرمیوں کے جواب میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف پاکستان میں کئی قسم کے مقدمات قائم ہیں اور اگرانہوں نے پاکستان واپس آنے کی کوشش کی تو ان کا استقبال چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے۔یہ الگ بات ہے کہ انہیں رخصت یوسف رضا گیلانی ہی حکومت نے کئی توپوں کی سلامی دے کر کیا تھا۔ لیکن اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ جو کچھ جنرل مشرف کرتے رہے ہیں پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت بھی وہی کچھ کر رہی ہے۔ مہنگائی اس وقت بھی زوروں پر تھی۔ مہنگائی اس وقت بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ بے روزگاری کے خاتمے لیے جنرل مشرف نے بھی کوئی اقدام نہیں کیا تھا ۔ موجودہ اتحادی بھی عام لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے کسی قسم کی منصوبہ بندی سے عاری ہیں۔قتل ، ڈکیتی ، چوری، راہزنی کی وارداتیں اس وقت بھی عام تھیں۔ آج بھی جاری و ساری ہیں۔خودکش بم دھماکے اس وقت بھی روزمرہ کا معمول تھے۔آج بھی اس عفریت سے نجات ممکن نہیں۔ بلوچستان میں آپریشن جنرل مشرف نے بھی کیا تھا۔ یہی ارادے اب وزیرداخلہ رحمٰن ملک نے بھی ظاہر کیے ہیں۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اس بھی عام تھی۔ اب بھی اس پر کنٹرول کی کوئی سبیل نہیں نکالی گئی۔میڈیا اور عدلیہ کے خلاف جنرل مشرف بھی صف آراء تھے ۔ موجودہ حکومت بھی اس سے دو ہاتھ آگے جا کر میڈیا اور عدلیہ کا گلا گھونٹنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔اس صورتحال میں اگر پرویزمشرف وطن واپس آکر سیاست میں حصہ لیتے ہیں تو عوام الناس کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آسکتی ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہمیں تلاش کرنا ہے۔ لوگ یقینی طور پر موجودہ حکمرانوں سے انتہائی بدظن ہیں۔ لیکن اس کے متبادل کے طور پر کیا انتظام لایا جائے ۔ اس سلسلے میں ہر ایک اپنی اپنی سوچ اور رائے ہو سکتی ہے۔ کوئی ایسا انتظام جس میں ٹیکنوکریٹس ہوں یا الطاف حسین کے بقول محب وطن جرنیل ہوں۔یا عدلیہ کی زیرنگرانی بنگلہ دیش طرز کا کوئی نظام لایا جائے۔ یا مشرف کو دوبارہ مسند اقتدار پر بٹھایا جائے۔ اگر وہ واپس آتے ہیں تو ان کا استقبال کون کرے گا۔ کیا واقعی ان کے خلاف اتنے مقدمات ہیں کہ انہیں چیف جسٹس کی عدالت میں حاضری بھرنی پڑے۔ کیا عوامی سطح پر ان کی اتنی مقبولیت ہے کہ عوام ان کے استقبال کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ کیا فوج میں اب بھی ان کے لیے نرم گوشہ موجود ہے کہ ایک ادارے کے طور پر ان کی واپسی کی راہ ہموار کی جائے۔آخر ان کا استقبال کون کرے گا؟
Read more »

کشمیریوں کا بھارت سے آزادی کا مطالبہ

بھارتی اخبار کے سروے کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے 66 فیصد کشمیریوں نے بھارت سے آزادی کا مطالبہ کردیا ہے ، 6 فیصد کشمیری پورے جموں و کشمیر کا پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں ، 56 فیصد کشمیری حالیہ فسادات کا ذمہ دار بھارتی حکومت کو سمجھتے ہیں جبکہ 44فیصد بھارتیوں کا کہنا ہے کہ وادی کے خراب حالا ت کیلئے ہمسایہ ملک پاکستان ذمہ دار ہے۔ تفصیلات کے مطابق بھارتی اخبار ” ہندوستان ٹائمز “ کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی تقریباً دو تہائی آبادی اپنے خطے کی آزادی چاہتی ہے ۔ دو حصوں میں تقسیم کشمیر کے خطے کا انتظام پاکستان اور بھارت الگ الگ سنبھالتے ہیں ، بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تقریباً 20 سال سے حق خود ارادیت اور علیحدگی کی تحریک جاری ہے جس کے باعث اب تک 47 ہزار افراد کی زندگیاں لقمہ اجل بن چکی ہیں ۔ ہندوستان ٹائمز کے سروے سے ظاہر ہوتا ہے 66 فیصد کشمیری ایک نئے ملک کی حیثیت سے پورے جموں و کشمیر کی مکمل آزادی چاہتے ہیں جبکہ صرف 6 فیصد پورے جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ چاہتے ہیں ۔ سروے میں لوگوں سے یہ بھی پوچھا گیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حالیہ پرُتشدد واقعات کا ذمہ دار کسے سمجھتے ہیں تو 56 فیصد کشمیریوں کا کہنا تھا کہ اس کی ذمہ دار بھارتی حکومت ہے جبکہ 44 فیصد بھارتیوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے حالات کا ذمہ دار ہمسایہ ملک اور روایتی حریف پاکستان ہے۔ سروے کے مطابق 96 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ فورسز کو کشمیری مظاہرین پر گولی نہیں چلانی چاہئے۔
Read more »

الطاف حسین نے مارشل لاء جیسے اقدام کی حمایت کیوں کی ؟

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے ملک کو کرپٹ سیاستدانوں سے نجات دلانے کے لیے محب وطن جرنیلوں کو آگے آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس طرز کا کوئی طرز حکمرانی سامنے آتا ہے تو ایم کیوایم اس کی حمایت کرے گی۔ لندن سے جنرل ورکرز اجلاس سے اپنے ٹیلی فونک خطاب میں ایم کیوایم کے قائد نے ملک میں انقلاب فرانس جیسی تبدیلی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔الطاف حسین کے اس دھماکہ خیز بیان کے بعد ملک میں نظام کی تبدیلی کے حوالے سے نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما اس بیان کو آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے جمہوریت کے خلاف سازش سے تعبیر کر رہے ہیں۔سپریم کورٹ بارکا کہنا ہے کہ الطاف حسین کا یہ بیان آئین کے آرٹیکل 6کے زمرے میں آتا ہے ۔جبکہ ایم کیوایم کے رہنما اپنے قائد کے بیان کے محرکات بیان کرتے ہوئے پرامید ہیں کہ انہوں نے جو تجویز پیش کی ہے اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔انہیں یہ بھی یقین ہے کہ وہ موجودہ نظام کا حصہ رہتے ہوئے نظام کی تبدیلی کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے ۔معروف شاعر صدیق منظر نے بھی اپنی ایک نظم میں پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے سیاستدانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے۔
Read more »

سیلاب زدگان امداد کے منتظر!

بین الاقوامی تنظیم ریڈ کراس نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں بدترین سیلاب پر عالمی ردعمل تباہ کاری کے تناسب سے کافی کم ہے، خدشہ ہے کہیں امداد آتے آتے بہت دیر نہ ہوجائے، تعمیر نو اور بحالی میں کئی برس تاخیر ہوسکتی ہے نیز صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر میڈیا کو بھی انہی سیلاب زدگان کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ کیونکہ سیلابی صورتحال ایک حد تک تشویشناک ہوتی جارہی ہے، اور متاثرین سیلاب اپنے علاقوں سے منتقل کئے جارہے ہیں، اور بے یار و مددگار ہیں، وہ حسرت بھری نگاہوں سے مالی و مادی امداد کے لئے اپنے ہموطنوں کی کی طرف دیکھ رہے ہیں، ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز کے سیکریٹری جنرل بیکلے گیلیٹا نے برطانوی خبر ایجنسی کو انٹرویو میں کہا کہ اب تک مطلوبہ ہنگامی امداد کا صرف ایک چوتھائی ہی پہنچ سکا ہے۔ عالمی برادری تباہی کو اموات کی تعداد سے جانچنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ سیلاب سے فصلیں برباد ہوگئی ہیں، جبکہ نہری اور آب پاشی نظام سمیت زرعی اور دیگر انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے۔ اس پورے نظام کی بحالی میں کم از کم پانچ سال کاوقت لگ سکتا ہے۔گیلیٹا نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر مطلوبہ امداد فوری طورپرنہ ملی تو صورت حال نہایت سنگین ہوسکتی ہے۔ وبائی امراض پھوٹنے اور غذائی قلت سے خاص کر بچے اور معمر افراد کی اموات کی شرح بڑھ سکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ بیرونی ممالک سے ہنگامی اور طویل مدتی امداد کے وعدے ناکافی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک کیلئے سیلاب کی تباہ کاری سے اکیلے نمٹنا تقریباً ناممکن ہے۔ مقامی اور عالمی سطح پر سنگین صورت حال پر توجہ درکار ہے۔
Read more »

بلوچستان میں سوات طرز کی کارروائی؟

وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہاہے کہ بلوچستان میں اساتذہ،مزدوروں، دکانداروں اوردیگربے گناہ افرادکی ٹارگٹ کلنگ پرحکومت کاپیمانہٴ صبرلبریزہوچکا،قیام امن کے لئے نوابزادہ حیربیار،براہمداغ بگٹی اورخیربخش مری سے رابطے کئے مگرمثبت جواب نہیں آیا،ہم نے پہلے پیارسے بات کی اب ایکشن ہوگااورنتیجہ قوم خوداپنی آنکھوں سے دیکھے گی، ان تمام عناصرکوآخری بارخبردارکررہے ہیں کہ وہ مذموم کارروائیوں سے باز آجائیں اورحکومت کے ساتھ مذاکرات کریں،آئندہ کسی نے قومی پرچم کی بے حرمتی کی تواسے معاف نہیں کیاجائیگا اورسخت ایکشن لیاجائیگا جس کاانہیں اندازہ نہیں ہے،اب حکومت ڈنڈا چلائے گی اور بلوچستان میں سوات طرز کی کارروائی کرینگے ، اس سلسلے میں عید کے بعد ملک کے تمام مسالک کے علمائے کرام سے ملاقات کروں گا، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ بہت ہو گئی، ہم نے پیار سے بات کی تاکہ لوگ خود صحیح راستے پر آجائیں، اب حکومت ڈنڈا چلائے گی تو صورتحال عوام اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، انہوں نے مزید کہا کہ جس صوبے میں سیاسی جماعتوں کی جگہ مسلح لبریشن پارٹیاں لے لیں تو وہاں سیکورٹی فورسز کو کارروائیاں کرنی ہی پڑتی ہیں ۔ متشدد کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے،رحمن ملک کاکہناتھا کہ جن افراد کے خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں اغواء کا واویلہ کیا جاتا ہے ان کی ایک تعداد دبئی ، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں قیام پذیر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال کو خراب کرنے میں غیر ملکی پیسہ استعمال ہو رہا ہے اور غیر ملکی ہاتھ پوری طرح ملوث ہے ۔میں ایک بات دوبارہ واضح کرتا ہوں کہ اگر آئندہ کسی نے پاکستان کاپرچم اتار کر اس کی بے حرمتی یا جلانے کی کوشش کی تو اسے کسی صورت معاف نہیں کیاجائیگا میں تمام جماعتو ں کو پاکستان کے سبز جھنڈے تلے مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں۔
Read more »

محمد عامر کو سزا کی نہیں، اصلاح کی ضرورت ہے؟

پاکستان کرکٹ ٹیم کے حوالے سے حال ہی میں سامنے آنے والے میچ فکسنگ کے نئے اسکینڈل میں سب سے زیادہ نقصان فاسٹ بالر محمد عامر کا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ بہت کم عرصے میں اپنی تیز رفتار اور ریورس سوئنگ بولنگ سے محمد عامر نے دنیائے کرکٹ میں اپنے لیے جو مقام پیدا کیا ہے وہ بہت کم کھلاڑیوں کو نصیب ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ان کے لیے ہمدردی کے جذبات موجود ہونے کے ساتھ دیگر ممالک کے کھلاڑی بھی انہیں مذکورہ اسکینڈل میں ملوث قرار دیے جانے پر افسردہ دکھائی دیتے ہیں۔برطانیہ کے سابق کپتان مائیک ایتھرٹن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ محمد عامر جیسے کھلاڑی کو سزا کی نہیں ،اصلاح کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کرکٹ کا مستقبل ہے اور اسے کسی اسکینڈل میں ملوث قرار دے کر ضائع کر دینا نہ صرف پاکستان بلکہ بہ حیثیت مجموعی کرکٹ کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی۔ وہ نچلے لیول سے کرکٹ کھیلتے ہوئے قومی ٹیم میں آئے ہیں۔ زیادہ پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر ہونے والے معاملات اور اچھے برے کی تمیز کرنے میں انہیں فی الوقت دشواری ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان کی اصلاح کے لیے کوئی بندوبست کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ان کے بہتر مستقبل کے لیے کیا ضروری ہے۔ تو یقینی طور پر وہ اپنے آپ کو درست کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور غلط صحبت میں پڑ کر اپنا پورا کیرئیر داؤ پر لگانے کی غلطی نہیں کریں گے۔ اسی طرح آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے سابق کوچ جیف لاسن کا کہنا ہے کہ دنیا اس پورے معاملے کو اپنے انداز میں دیکھ رہی ہے۔ جبکہ پاکستان میں سٹہ مافیا اس قدر مضبوط ہے کہ وہ کھلاڑیوں کے اہل خانہ کو اغوا ء اور قتل کی دھمکیاں دے کر اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔ انہوں نے ایک واقعہ کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب وہ پاکستان ٹیم کے کوچ تھے تو ایک کھلاڑی کو ٹیم میں شامل کرنے لیے اتنا دباؤ تھا کہ معاملہ صدرمشرف تک لے جانا پڑا جس کے بعد کھلاڑی کی جان بخشی ہوئی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے نوجوان کرکٹرز کی سٹے باز مافیا کے ساتھتعلقات کی باتیں کچھ نہ کچھ سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم کسی بھی کھلاڑی کے مجرم ثابت ہونے سے پہلے ہی اس کا میڈیا ٹرائل شروع کر دیتے ہیں۔ جب غیرملکی کھلاڑی اور تبصرہ نگارہمارے کھلاڑیوں کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھ سکتے ہیں تو کیا ہم تھوڑا بہت ہی سہی انہیں شک کا فائدہ نہیں دے سکتے ؟
Read more »

 
ujaalanews.com | OnLine Tv Chennals | Shahid Riaz