Posted by Unknown on Tuesday, August 31, 2010
قومی کرکٹ ٹیم مسلسل شکستوں کا داغ دھونے میں اوول کے میدان میں کامیاب کیا ہوئی کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق لارڈز کے تاریخی کرکٹ گراؤنڈ میں ایک بار پھر میچ فکسنگ کے الزامات میں پھنس گئی ہے۔ایک برطانوی اخبار کے مطابق پولیس نے لندن کے ایک ہوٹل سے مظہر مجید نامی ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا ہے جو مبینہ طور پر اپنے سامنے نوٹوں کے ڈھیر لگائے بیٹھا تھا اور اس کا دعویٰ یہ تھا کہ لارڈز کا میچ پاکستان کرکٹ ٹیم نے فکس کیا ہوا ہے۔ مذکورہ شخص نے اپنے اس دعویٰ کی صداقت کے لیے کچھ وڈیوز کے ذریعہ یہ بات بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ محمد عامر اور محمد آصف کی کون کون سی بال طے شدہ پلان کے مطابق نو بال تھی۔میچ فکسنگ میں جن دیگر کھلاڑیوں کے نام سامنے آئے ہیں ان میں کپتان سلمان بٹ اور نائب کپتان کامران اکمل بھی شامل ہیں۔ ابتدائی طور پر برطانوی پولیس نے ان چاروں کھلاڑیوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے ہیں اور ان سے پوچھ گچھ بھی کی ہے۔ جبکہ پاکستانی حکومت نے بھی ان الزامات کو انتہائی سنگین قرار دیتے ہوئے مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کھلاڑیوں پر ہوٹل کے باہر گندے ٹماٹر بھی پھینکے گئے ہیں۔ تمام حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یقینی طور پر میچ فکسنگ کے نئے الزامات نے پاکستان کرکٹ کے پہلے سے کمزور ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ان الزامات کی صداقت کے حوالے سے چند بنیادی نوعیت کے سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ میچ فکسنگ کے طریقہ ء کار اور قواعدوضوابط سے آگاہی رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ جس انداز میں پولیس نے مذکورہ بکی کو گرفتار کیا ہے۔ بکیوں کا طریقہ ء کار کبھی بھی اس طرح نہیں رہا کہ وہ ٹیبل پر نوٹ بچھا کر بیٹھ جائیں ۔ پھر یہ بھی اصول رہا ہے کہ میچ فکسنگ کبھی بھی نوبال پر نہیں ہوئی۔ان مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کرکٹ کے خلاف بھارتی لابی کی ایک نئی سازش ہو سکتی ہے۔ محمد عامراور محمد آصف اس وقت انتہائی فارم میں ہیں۔اور ان کا کیرئیر تباہ کرنے کی سازش کو کلی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔خاص کر محمد عامر نے جس انداز میں اپنے کیرئیر کا آغاز کیا ہے۔ وہ ان کے انتہائی روشن مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اگر ابھی سے وہ میچ فکسنگ جیسے بے ہودہ الزامات کی زد میں آگئے تو یقینی طور پر ان کا کیرئیر داؤ پر لگ سکتا ہے۔
Read more »
Posted by Unknown on Thursday, August 26, 2010
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے ملک کو کرپٹ سیاستدانوں سے نجات دلانے کے لیے محب وطن جرنیلوں کو آگے آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس طرز کا کوئی طرز حکمرانی سامنے آتا ہے تو ایم کیوایم اس کی حمایت کرے گی۔ لندن سے جنرل ورکرز اجلاس سے اپنے ٹیلی فونک خطاب میں ایم کیوایم کے قائد نے ملک میں انقلاب فرانس جیسی تبدیلی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔الطاف حسین کے اس دھماکہ خیز بیان کے بعد ملک میں نظام کی تبدیلی کے حوالے سے نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما اس بیان کو آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے جمہوریت کے خلاف سازش سے تعبیر کر رہے ہیں۔سپریم کورٹ بارکا کہنا ہے کہ الطاف حسین کا یہ بیان آئین کے آرٹیکل 6کے زمرے میں آتا ہے ۔جبکہ ایم کیوایم کے رہنما اپنے قائد کے بیان کے محرکات بیان کرتے ہوئے پرامید ہیں کہ انہوں نے جو تجویز پیش کی ہے اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔انہیں یہ بھی یقین ہے کہ وہ موجودہ نظام کا حصہ رہتے ہوئے نظام کی تبدیلی کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے ۔معروف شاعر صدیق منظر نے بھی اپنی ایک نظم میں پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے سیاستدانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے۔
تمہیں اعزاز بخشا ہے کروڑوں دل جلوں ،بے روزگاروں ، غم کے ماروں نے
گرجتی گونجتی شوریٰ میں تقریروں سے کب فاقے بہلتے ہیں
ہمارے اور تمہارے درمیاں میدان سجنا ہے، ہمیں پیروں ، فقیروں اور وڈیروں سے وطن آزاد کرنا ہے
تھکے ہارے زمانوں کے ، یہ گرد آلود چہرے اور ہاری کس طرف ہوں گے ، سرمیدان دیکھیں گے
تماشا گر سیاست کے یہ پیشہ ور مداری کس طرف ہوں گے
تم اب کے لوٹ کر جاؤ گے اپنے گاؤں ، گلیوں اور شہروں میں
تو اپنے چوک ، چوراہے ، صلیبیں ، سولیاں ، خود منتخب کر لو
تمہیں اب آخری موقع یہ بے بس قوم دیتی ہے، اگر چاہو تو خود کو سرخرو کر لو
تمہاری بالا دستی کا یہ جمہوری تماشا پھر نہیں ہوگا۔
ایک شاعر نے اپنی اس نظم میں جو منظر کشی کی ہے۔ وہ رشوت ، بدعنوانی ، اقرباء پروری، لوٹ مار، ظلم وتشدداور جعلی ڈگریوں کے سیلاب میں بہتی ہوئی بے سہارا قوم کے دل کی آواز دکھائی دیتی ہے۔ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے بیان کو بھی اسی نظم کے تسلسل میں دیکھا جائے تو بہت سے نئے سوالات جنم لیتے ہیں۔جن کا جواب جاننا ہماری اورآپ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
کیا کرپٹ سیاستدانوں سے نجات کے لیے جس انقلاب کی ضرورت ہے وہ پاکستان جیسے معاشرے میں وقوع پذیر ہو سکتا ہے؟
کیا مارشل لاء ہی بحران کا حل ہے۔سیاستدانوں اپنی اصلاح خود نہیں کر سکتے ؟
کیا کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف کارروائی صرف فوج کر سکتی ہے؟
کیا اس سے پہلے نافذ کیے گئے مارشل لاء کرپشن کے خاتمے میں کامیاب رہے؟
Read more »
Posted by Unknown on Thursday, August 26, 2010
سیالکوٹ میں رونما ہونے والے دو بھائیوں کے بہیمانہ قتل نے ساری قوم کو ہلا کے رکھ دیا ہے جہاں پر ہجوم لوگوں کی موجودگی میں کچھ درندہ صفت لوگوں نے ان دوبھایئوں کو وحشیانہ طریقہ سے ڈندوں پتھروں اور زنجیروں سے باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا اورمارنے کے بعد انہیں ایک ٹرالر پہ گھمایا۔ان میں پولیس ریسکیو کے علاوہ عام شہری بھی شریک ہوئے،وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ سانحہ سیالکوٹ قومی المیہ ہے ، دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوئی،واقعہ میں ملوث افراد کو اسی جگہ لٹکایا جائیگا جہاں دو بھائی قتل ہوئے، سیالکوٹ کے عوام انکوائری کمیشن سے تحقیقات میں تعاون کریں، شہریوں کو قانون ہاتھ میں لینے اور اپنی عدلیہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے،4
پولیس ملزمان سمیت 10 افراد کو گرفتار کر لیا،پولیس اہلکاروں کو جرم کے مطابق سزا ملے گی ، سیالکوٹ میں سرعام قتل کئے جانے والے دو بھائیوں کے اہل خانہ سے تعزیت کے بعد اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ ان ملزمان کو سزا ملے ،پولیس اہلکار بھی ذمہ دار ہیں، وزیراعلی پنجاب قابل اور اچھے انسان ہیں پولیس کی کوتاہی کا نوٹس لیں گے، معاملے پر سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر کارروائی کی جائے گی ،ملزمان کے نام ای سی ایل میں شامل کئے جائیں گے،انہوں نے کہا کہ واقعہ کے عینی شاہدین کو سکیورٹی فراہم کی جائے گی، ہمیں معاشرے کو سدھارنا ہے اور اس کیلئے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ غیر قانونی اسلحہ رکھنے والوں کو دس سال قید کی سزا ہوگی۔ سیالکوٹ واقعہ کی انکوائری رپورٹ میں پولیس کا کردار سامنے آ جائے گا۔
کیا اس طرح قانون سے کھیلنے کی اجازت قانون کے محافظو ں کو دی جاسکتی ہے؟
پولیس کے اس مجرمانہ فعل کی پردہ پوشی کرنے والوں کو سزا نہیں دینی چاہئے؟
کیا اس طرح کے واقعات جرائم کو فروغ دینے میں مددگار نہیں ہوں گے؟
اس طرح کے بہیمانہ قتل اور پولیس کے کردار پر اپنی رائے کا اظہار کریں۔
Read more »
Posted by Unknown on Thursday, August 26, 2010
یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ ہر سال رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی اپنی عروج پر ہوتی ہے، اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں دوگنا اور تین گنا تک اضافہ کردیا جاتا ہے، اورحکومت کا اعلان کردہ رمضان پیکیج دھرے کا دھرے رہ جاتاہے جبکہ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ۔ خصوصا ًاس وقت رمضان ایسے وقت آیا ہے جب سارا ملک سیلاب کی زد میں ہے، ہر طرف آہ و بکا مچی ہوئی ہے لوگ پریشان ہیں، ٹرانسپورٹ اور مال برداری کا فقدان ہے، راستے بند ہیں، سڑکیں پانی ڈوب رہی ہیں اور فصلیں سیلابی ریلے کی نذر ہوچکی ہیں ، دو کروڑ عوام مدد کے لئے پکار رہے ہیں، انتظامی مشینری فیل ہوچکی ہے، رمضان میں ویسے ہی اشیاء ناپید ہوجاتی ہیں اور مہنگی بھی، اب جبکہ سیلاب سب کچھ بہا لے گیا ہے، عوام سوچ رہے ہیں گھر بار تباہ ہوگئے ہیں، اس رمضان میں کیا ہوگا ؟ سحر و افطار کیلئے جب چیزیں ہی نہ ملیں گی تو عوام رد عمل کیا ہوگا، اشیائے خوردنی کی ترسیل کا سلسلہ بند ہے،حکام کے سستی اور معیاری اشیاء کی فراہمی کے دعوے میں کہاں تک کامیاب ہوں گے؟ کیا عوام کو ریلیف مل سکے گا؟ کیا ماہ رمضان میں مہنگائی پہ قابو پالیا جائے گا؟ کیا سیلاب زدگان اس ماہ رمضان کی فیوض و برکات سے لطف اندوز ہوسکیں گے؟ جب انتظامیہ مفلوج ہوچکی ہو تو عوام کیا کریں۔
اس بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
Read more »
Posted by Unknown on Thursday, August 26, 2010
اب تک ہونے والے ٹیسٹ میچز میں ہماری بولنگ کا معیار بہتر سے بہتر ہوتا جارہا ہے، محمد آصف ،محمد عامر، سعید اجمل نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ ہماری فیلڈنگ اور بیٹنگ ابھی تک پرفارمنس نہ دکھلاسکی، لیکن اس کے برعکس وہاب ریاض کی فائیو اسٹار پرفارمنس کے بدولت اوول ٹیسٹ کاپہلا دن پاکستان کے نام رہا، نوجوان لیفٹ آرم فاسٹ بولر نے ڈیبیو ٹیسٹ میں پانچ وکٹ لے کر اپنا انتخاب درست ثابت کردیا، ان کی عمدہ بولنگ کی وجہ سے انگلش ٹیم پہلی اننگز میں 233 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی۔کرکٹ بورڈ ٹیم کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ٹیم کھیل کے ہر شعبے میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے۔
وہاب ریاض کی اچھی کارکردگی پہ آپ اپنی رائے کا اظہارکیجئے۔
Read more »
Posted by Unknown on Thursday, August 26, 2010
پیپلز پارٹی کے جاگیرداروں اور رہنماؤں کے اثاثے بچانے کیلئے سیلابی پانی کا رخ بلوچستان کی طرف موڑنے پر جہاں حکومت بلوچستان اور اہم سیاسی رہنماؤں کی طرف سے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پرالزامات لگائے جارہے ہیں وہاں پیپلز پارٹی کے اندر بھی شدید جنگ چھڑ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی بلوچستان کے سیکرٹری جنرل اپنی پارٹی کے وفاقی وزرا خورشید شاہ اور اعجاز جاکھرانی کے خلاف کھل کر سامنے آگئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ یہ رہنما بلوچستان کے 10لاکھ لوگوں کو بے گھر کرنے اور سیکڑوں ایکڑ زیر کاشت رقبہ کی تباہی کے ذمے دار ہیں۔ پی پی پی بلوچستان کے سیکرٹری جنرل بسم اللہ خان کاکڑنے باقاعدہ پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں بلوچستان کی طرف سے غیر ضروری طور پر پانی کا بہاؤ موڑنے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ”دی نیوز“ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خورشید شاہ اور اعجاز جاکھرانی نے اپنی زمینیں اور جیکب آباد میں امریکیوں کے زیر استعمال شہباز ایئر بیس بچانے کے لئے سیلابی پانی کا رخ بلوچستان کی طرف موڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ایک ہردلعزیزجماعت ہے اور دو طاقت ور وزرا کی طرف سے بلوچستان کی طرف سیلابی پانی چھوڑے جانے پر بلوچستان بھر میں ہماری جماعت کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حکومت نے خورشید شاہ اور اعجاز جاکھرانی کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا تو اس سے پوری دنیا میں پارٹی کی بدنامی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر طاقت ور وزرا کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے تو انسانوں کے ہاتھوں تباہ ہونے والے بھی پیپلز پارٹی کے کارکن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک سومرو سردار نے خورشید شاہ کو اپنی چاول کی فصل بچانے کے لئے پانی کا رخ صحرائے تھر کی طرف موڑنے کے عوض20 ملین روپے کی پیشکش کی تھی جس سے دس لاکھ افراد کو بچایاجا سکتا تھا مگر خورشید شاہ نے یہ پیشکش مسترد کردی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ڈیرہ مراد میں تباہی پھیلانے کے بعد سیلابی پانی کا رخ شہباز ایئر بیس کی طرف ہوگیا تھا مگر اس کی شدت زیادہ نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ سیلابی ریلے میں ڈوبنے والے گھروں کی تعمیرمیں تین نسلوں نے حصہ لیا مگر بارسوخ لوگوں کے باعث یہ چند گھنٹوں میں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ ان کے سیکرٹریٹ سے جاری پریس ریلیز میں انہوں نے پانی کا بہاؤ موڑنے کو ایک مجرمانہ عمل قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ حکومت بلوچستان کو اس کے ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آردرج کرا کر عدالتوں سے انصاف حاصل کرناچاہئے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پانی کے قدرتی بہاؤ کا رخ بلوچستان کی طرف موڑنے کے لئے توری بند میں شگاف کیا گیا۔ سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین جان جمالی نے پہلے ہی سیلابی پانی کا رخ بلوچستان کی طرف موڑنے کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان میر ظفر اللہ خان جمالی جن کا آبائی علاقہ سیلابی پانی میں تباہ ہوگیا، ادھر بلوچستان حکومت نے بھی سندھ کی طرف سے پانی کا رخ بلوچستان کی طرف موڑے جانے کے خلاف بھرپور احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔
سیلابی پانی کا رخ موڑنے کی سیاست ہمیں کس سمت لے جارہی ہے؟
کیا سیلابی ریلا سیاستدانوں کی بے حسی کا مذاق نہیں اڑا رہا ہے؟
جاگیر دار ،زمیندار اور وڈیرے کب تک ملک کی قسمت سے کھیلتے رہیں گے؟
مفادات کی اس جنگ پر اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
Read more »
Posted by Unknown on Thursday, August 26, 2010
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بد امنی کے واقعات سب کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، جہاں کچھ عرصہ امن سے گذرنے کے بعد یہی صورتحال پیدا ہوتی رہتی ہے اور ترقی کرتا شہر نا معلوم لوگوں کی کی جانب سے پھیلائی گئی بدامنی کا شکار ہوجاتا ہے، کاروبارک جاتا ہے ٹرانسپورٹ معطل ہوجاتی ہے، اسکول کالج بند کروادئے جاتے ہیں،آخر اس کا کوئی حل تو ہونا چاہئے، کراچی میں گزشتہ کئی دن سے پر تشدد واقعات جاری ہیں جس میں80
سے زائد افراد ہلاک ہو چکیہیں اب یہ شورش بڑھتی جارہی ہے، جس کا تدارک ضروری ہے کیونکہ کراچی ملک کا سب سے بڑا آبادی والا صنعتی شہر ہے، بزنس حب ہے۔ کراچی میں ہونے والی قتل و غارت گری سب کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے، کیونکہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والاطبقہ ایک مزدور اور غریب آدمی ہے جو روز مرہ کمائی کا محتاج ہے،کراچی میں امن کی بحالی ہر جماعت کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں اپنا کردار اد ا کریں، کراچی کی وجہ سے سارا ملک متاثر ہوتا ہے، کراچی کی مضافاتی بستیوں میں جو اس وقت صورتحال ہے،واقعی تشویشناک ہے، آپ کے خیال میں کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام کس طرح ممکن ہے؟اس کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا کون دے گا؟ کیا کراچی کا امن پورے ملک کی ضرورت نہیں،
کراچی واقعات اور اس کے حل کے لئے آپ کے پاس کیا تجاویز ہیں ؟
اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
Read more »