تمہیں اعزاز بخشا ہے کروڑوں دل جلوں ،بے روزگاروں ، غم کے ماروں نے
گرجتی گونجتی شوریٰ میں تقریروں سے کب فاقے بہلتے ہیں
ہمارے اور تمہارے درمیاں میدان سجنا ہے، ہمیں پیروں ، فقیروں اور وڈیروں سے وطن آزاد کرنا ہے
تھکے ہارے زمانوں کے ، یہ گرد آلود چہرے اور ہاری کس طرف ہوں گے ، سرمیدان دیکھیں گے
تماشا گر سیاست کے یہ پیشہ ور مداری کس طرف ہوں گے
تم اب کے لوٹ کر جاؤ گے اپنے گاؤں ، گلیوں اور شہروں میں
تو اپنے چوک ، چوراہے ، صلیبیں ، سولیاں ، خود منتخب کر لو
تمہیں اب آخری موقع یہ بے بس قوم دیتی ہے، اگر چاہو تو خود کو سرخرو کر لو
تمہاری بالا دستی کا یہ جمہوری تماشا پھر نہیں ہوگا۔
ایک شاعر نے اپنی اس نظم میں جو منظر کشی کی ہے۔ وہ رشوت ، بدعنوانی ، اقرباء پروری، لوٹ مار، ظلم وتشدداور جعلی ڈگریوں کے سیلاب میں بہتی ہوئی بے سہارا قوم کے دل کی آواز دکھائی دیتی ہے۔ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے بیان کو بھی اسی نظم کے تسلسل میں دیکھا جائے تو بہت سے نئے سوالات جنم لیتے ہیں۔جن کا جواب جاننا ہماری اورآپ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
کیا کرپٹ سیاستدانوں سے نجات کے لیے جس انقلاب کی ضرورت ہے وہ پاکستان جیسے معاشرے میں وقوع پذیر ہو سکتا ہے؟
کیا مارشل لاء ہی بحران کا حل ہے۔سیاستدانوں اپنی اصلاح خود نہیں کر سکتے ؟
کیا کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف کارروائی صرف فوج کر سکتی ہے؟
کیا اس سے پہلے نافذ کیے گئے مارشل لاء کرپشن کے خاتمے میں کامیاب رہے؟