جعلی ڈگریاں اسمبلی کے ماتھے پرکلنک کا ٹیکہ

ہمارے ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے اراکین اسمبلی اور سینٹ نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی کی حاکمیت پہ قبضہ کرلیا اور جہاں من مانے فیصلے کئے وہیں جعلی ڈگری والے بھی بھی اسمبلی میں پہنچ گئے جو سیاسی شعور و آگاہی سے ناواقف ہیں، لیکن مراعات سے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور عوام کے لئے کچھ نہیں کیا۔عوام نے اس پر احتجاج بھی کیا، وہ ڈھٹائی سے اس پر قائم رہے کہ وہی درست ہیں،اسی ضمن میں سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ جعلی ڈگری رکھنے والے اراکین کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ عدالت نے جعلی ڈگری کے ایک کیس میں 15 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ ایسے تمام اراکین کے خلاف ایکشن لے جو کہ جعلسازی اور بدعنوانی کے مرتکب ہوئے یا جنہوں نے دانستہ طور پر جعلی دستاویز کو اصل بنا کر استعمال کیا الیکشن کمیشن ایسے معاملات میں تفتیش کو ایماندارانہ بنائے اور یہ بھی یقینی بنائے کہ تفتیش مہارت کے ساتھ ہو اور جلد ہو رہی ہے جبکہ مزید الیکشن کمیشن کو یہ بھی ہدایات جاری کی گئیں ہیں کہ ان معاملات کی نگرانی کیلئے ایک آفیسر کو تعینات کرے اور تمام ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ جن ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کے پاس الیکشن کمیشن جعلی ڈگری کے مقدمات بھجوائے گئے وہ الیکشن قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی تاخیر کے بغیر ان کے ٹرائل کو مکمل کریں اور ٹرائل میں تین ماہ سے زائد کا عرصہ نہ لگائیں۔ جعلی ڈگری کی سزا تین سال قید ہے۔ آئین کی آرٹیکل 218 کے تحت الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہو کہ وہ جعلی اسناد والے افراد کو پارلیمنٹ میں جانے سے روکے۔ الیکشن کمیشن ایسا نہ کرنے پر اپنے فرائض سے کوتاہی کی مرتکب ہو گا۔ تفصیلی فیصلے میں درج کیا گیا کہ کسی قانون کو اچھا یا برا قرار دینا آئینی اداروں کی ذمہ داری ہے‘ مہذب معاشرے میں کسی فرد کو قانون کو اچھا یا برا قرار دینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جعلی ڈگریاں رکھنے کی برائی کو جڑ سے اکھاڑ نہ پھینکا گیا تو یہ برائی پورے معاشرے کو تباہی کی طرف لے جائے گی۔

 
ujaalanews.com | OnLine Tv Chennals | Shahid Riaz