تریپولی: لیبیا میں صدر معمر قذافی کے خلاف احتجاج میں روز بہ روز شدت آ رہی ہے۔ مظاہرین دارالحکومت طرابلس کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ حکومت نے دارالحکومت میں مظاہرین کو دیکھتے ہی گولی مارنا کا حکم دے دیا۔ یورپی یونین نے لیبیا کے صدر معمر قذافی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے نتائج سے خبر دار کیا ہے۔ مختلف ممالک نے لیبیا میں اپنے سفارتخانے بند کر دیئے ہیں۔ غیرملکیوں کے انخلاء میں بھی تیزی آگئی ہے۔ مظاہروں کے دوران لوٹ مار جاری ہے۔ مختلف علاقوں میں کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ہوگئی ہے۔ لاکھوں افراد دیگر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ پناہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کی تنظیم کا کہنا ہے کہ گذشتہ ہفتے ایک لاکھ افراد لیبیا سے نقل مکانی کر گئے۔ ان میں غیر ملکیوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ کرنل قذافی کے بیٹے سیف الاسلام کا کہنا ہے بحران سے خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا ہے۔ دوسری جانب یورپی یونین نے مطالبہ کیا ہے لیبیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی بند کی جائے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین آشٹن نے صدر قذافی کو نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی روکی جانی چاہیے۔ روس نے بھی مظاہرین پر تشدد کی شدید مذمت کی ہے۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے لیبین ہم منصب موسی سے کہا ہے عام شہریوں پر تشدد ناقابل قبول ہے۔ ادھر اپوزیشن طاقتوں نے مشرقی علاقوں میں عبوری حکومت قائم کردی۔ اقوام متحدہ میں لیبیا کے سفارتخانے نے عبوری حکومت کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ لیبیا کے سابق وزیر انصاف مصطفی محمد عبدالجلیل نے میڈیا کو بتایا کہ عبوری حکومت کا پہلا اجلاس بن غازی میں ہوا۔